پاکستان میں ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی ریگولیشن اینڈ ڈیویلپمینٹ کی بنیاد دسمبر 2013 میں رکھی گئی وزیراعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے اس وقت بنیادی ڈھانچہ تیار کر کے قانون پاس کیا گیا اور رئیل اسٹیٹ بزنس کے لیے ٹیکس رفامز کمیشن بھی تشکیل دیا گیا بھر 2015 میں اس ACT میں مزید ترامیم کی گئیں یہ ایکٹ پاکستان بھر میں محیط تھا بھر 2017 میں دوبارہ ترامیم کے ساتھ ایکٹ پاس کیا گیا پھر 2019 میں بل قومی اسمبلی سے پاس ہوا اور اِس کے بعد یہ قانون کا عمل مکمل ہوا اور عملی طور پر اسلام آباد میں ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام کیا گیا۔
ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا پس منظر
تقریباً تین سال قبل سابقہ وزیر اعظم عمران خان نے مجوزہ اتھارٹی کے قیام کی ہدایت کی جس سے ان امیدوں کو تقویت ملی کہ ان کی حکومت مُلک کی حقیقی صلاحیتوں کا ادراک کرنے اور معاشی نمو کو بڑھانے کے لئے پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کی بے قاعدہ مارکیٹ کو منظم کرنے میں سنجیدہ ہے۔
ایک متحرک، محفوظ اور قابل اعتماد رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے لئے سازگار ماحول بنانے کے لئے ایک مضبوط ریگولیٹری فریم ورک کا قیام بہت ضروری تھا۔
تعمیراتی صنعت کے لئے حکومت کی مالیاتی مراعات کی کامیابی بڑی حد تک شفاف ریگولیٹری فریم ورک کے قیام اور اُس پر عملی طور پرجلد عمل درآمد کرنا ضروری تھا لیکن اس پر تقریباً 30فیصد عملی ورکنگ ہو سکی ۔
پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کے موجودہ مسائل
پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ بڑی حد تک ایک غیر دستاویزی معیشت پر کام کرتی ہے اور ایک موثر ریگولیٹری فریم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے متعدد مسائل سے دوچار ہے۔ اِس ضوابط کے فقدان پر اسٹیک ہولڈرز، خریداروں، فروخت کنندگان، ڈویلپرز، کرایہ داروں وغیرہ کو ہمیشہ سے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
دھوکہ دہی اور ملکیت کی لڑائی، کرایہ داری کے تنازعات پر اکثر اسٹیک ہولڈرز لمبی عدالتی لڑائیوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے ایک غیر واضح کاروباری ماحول جنم لیتا ہے، جس سے نہ صرف سرمایہ کار کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ رئیل اسٹیٹ پر عمومی اور عوامی اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے۔
اس سے زیادہ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس شعبے سے وصول کیا جانے والا ٹیکس اس کی حقیقی صلاحیت سے بہت کم ہے کیونکہ گذشتہ چند دہائیوں سے رئیل اسٹیٹ،بے پناہ ٹیکسوں اور بھاری ٹرانسفر اخراجات اور پابندیوں کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ بزنس بحران کا شکار ہے –
ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی، توقعات اور اُمیدیں
حالیہ برسوں میں، حکومت نے اس سیکٹر کو دستاویزی بنانے اور ٹیکس محصولات میں اضافے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، یہ اقدامات ایک ریگولیٹری اٹھارٹی اور پالیسی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث زیادہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئے۔ اور نہ ہی حکومت کی ذیادہ توجہ حاصل ہو سکی –
اب چونکہ حکومت چینج ہو چکی ہے اور رئیل اسٹیٹ بزنس کو چلانے کے لیئے گذشتہ حکومت کی جانب سے جو سہولیات فراہم کی گئی تھی اور جھوٹے گھر بنانے کے کم مارک اپ کے ساتھ اور آسان شرائط کے ساتھ قرضوں کا اجرا،لو کاسٹ ہاؤسنگ پروجیکٹ،نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے پراجیکٹس ،سوسائٹی اونرز،بلڈرز اور ڈویلپرز کو دی جانے والی بے شمار سہولیات آور مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ کی وجہ سے ریئل اسٹیٹ بزنس چلنا شروع ہو گیا تھا اب موجودہ حکومت کی توجہ نہ ہونے اور ہے پناہ ٹیکسوں کے نفاذ کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ بزنس شدید ترین بحران کا شکار ہے ریگولیٹری اتھارٹی کا وُجود بھی واضح نہیں اس حکومت سے توقع کی جارہی ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور سینیئر رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے ساتھ مل کر کام کرے اور حکومت اور نجی شعبے کے مابین ایک پُل بنے۔ یوں رکاوٹیں دور ہوں گی اور رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو تقویت دینے کے لیے حکمت عملی تیار کی جاسکے گی۔
ایک بار اگر حکومت نے ایک شفاف سرمایہ کاری کا نظام واضح کردیا آور سرمائے کو تحفظ فراہم کیا اور ایک رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو ایک موثر ادارے کے ذریعہ کنٹرول کرلیا تو اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں آور اور سیز پاکستانیوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو راغب کرنا مشکل نہیں ہوگا۔
حکومت اس بل کو ملک میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے نظم و نسق اور فروغ کے لئے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ کرے اور عملی طور پر آغاز کرنا چاہیے۔
اتھارٹی کے اہم نکات پر ایک نظر
اب بات کرتے ہیں اِس ریگولیٹری اتھارٹی کے چیدہ چیدہ نکات کی جو کہ درج ذیل ہیں۔
وفاقی حکومت ریگولیٹری باڈی کا چیئرمین مقرر کرے گی۔
رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے لئے پاکستان میں کسی بھی قسم کی پراپرٹی کی خرید وفروخت کرنے کے لئے اتھارٹی کے ساتھ اندراج لازمی ہوگا۔ رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے فرائض آور حقوق کا تعین کیا جائے گا اور اسی دو فیصد کمیشن کا تعین کیا جائے گا ریگولیٹری اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں پلاٹ، مکانات اور عمارات کی فروخت سب شامل ہیں۔ بلکہ پراپرٹی کی اونر شب کا لیٹر بھی حکومت جاری کرے تاکہ تنازعات سے بچا جا سکے
رئیل اسٹیٹ کے کسی بھی منصوبے پر کسی بھی طرح کا کام شروع کرنے سے پہلے ڈویلپرز کے لئے بھی ریگولیٹری باڈی سے منظوری لینا لازم ہوگا۔اور سوسائٹیز وہ ہی پلاٹ یا پراپرٹی فروخت کر سکیں جو موقع پر با قبضہ موجود ہو اور اؤرسیلنگ نہ ہو- آور بینکنگ سیکٹر کی طرز پر محفوظ سرمایہ کاری کی جا سکے-
ریگولیٹری باڈی سے منظوری حاصل کرنے کے لئے ڈویلپرز کو مستقبل کے منصوبوں کے ساتھ اپنے موجودہ اور ماضی کے رئیل اسٹیٹ پراجیکٹس سے متعلق تمام تفصیلات جمع کرانی ہوں گی۔
خلاف ورزی کی صورت میں ریگولیٹری باڈی کے پاس کسی بھی پروموٹر اور مارکیٹر کا لائسنس منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا۔
رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی رئیل اسٹیٹ ایجینٹس کے ساتھ ان افراد کے حقوق کا بھی تحفظ کرے گی جنہیں جائیداد الاٹ کی گئی ہے۔
سول عدالتیں غیر منقولہ جائیداد کے تنازعات سے متعلق معاملات سماعت کے لیے مقرر نہیں کریں گی جو متعلقہ ریگولیٹری اتھارٹی کے دائرہ کار میں آئیں۔ با قائدہ طور پر اپیلینٹ ٹربیونل قائم کیا جائے گا جس میں سٹیک ہولڈرز کو شامل کیاجائے گا جو 30 دن سے 90 دن کے اندر اندر فیصلہ کر ے گا
کسی بھی رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ پر کام شروع کرنے سے پہلے ڈویلپرز کو ریگولیٹری اتھارٹی کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہوگا۔ منظوری کے بغیر کسی بھی ڈویلپر یا مارکیٹر کو جائیداد فروخت کرنے یا اس منصوبے سے متعلق اشتہار شائع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
حرفِ آخر
پاکستان میں رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ مالک اور خریدار اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے حقوق کا تحفظ کرے گی۔ نیز، روز مرہ کی خرید وفروخت سے جُڑے تنازعات کو پیشہ ورانہ طریقے سے اور بروقت حل کیا جائے گا، جس سے لوگوں کو اب پیسہ ضائع ہونے کے بجائے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔
حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں خصوصی توجہ دیں اور حکومت وقت کی پبلک ویلفیئر کی شاندار روایات کے پس منظر میں بزنس کی بحالی کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ عملی اقدامات کرے تاکہ رئیل اسٹیٹ بزنس کا دوبارہ آغاز ہو سکے اور رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا ہنگامی بنیادوں پر عملی طور پر آغاز کیا جائے
زاہد بن صادق
0300-0321-8402220
